طیبہ سے منگائی جاتی ہے

طیبہ سے منگائی جاتی ہے سینے میں چھپائی جاتی ہے

تو حید کی مے ساغر سے نہیں آنکھوں سے پلائی جاتی ہے


مسجد میں نہیں ، مندر میں نہیں ، مکتب میں نہیں معبد میں نہیں

سنتے ہیں کتابِ عشق ترے کو چے میں پڑھائی جاتی ہے


ہم دل میں بٹھا کر اُس بُت کی ہر روز پر ستش کرتے ہیں

اللہ رے تصویرِ جاناں کعبے میں سجائی جاتی ہے


اللہ کرے اُس چوکھٹ تک اپنی بھی رسائی ہو جائے

جس چو کھٹ پر دیوانوں کی تقدیر بنائی جاتی ہے


اس ہجر کے جینے سے اعظؔم مرنا ہی گوارا ہے مجھ کو

سنتے ہیں لحد میں حضرتؐ کی تصویر دکھائی جاتی ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

میرے آقا میرے سر تاج مدینے والے

نگا ہوں میں ہے سبز گنبد کا منظر

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

ہو جائے دل کا دشت بھی گلزار ،یا نبی

نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمارا یا رسول اللہ

کھلے بوہے ویخ کے تیرے دوارے آگئے

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

اے خدائے کریم ! اے ستار!

کرم کے بادل برس رہے ہیں

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے