یہ آرزو نہیں ہے کہ قائم یہ سر رہے

یہ آرزو نہیں ہے کہ قائم یہ سر رہے

مری دعا تو ہے کہ ترا سنگِ در رہے


اے ساقی تیری خیر ، ترے میکدے کی خیر

ایسی پلا کی جس کا نشہ عمر بھر رہے


فرقت کی سختیاں مجھے منظور ہیں مگر

اتنا ضرور ہو کہ تجھے بھی خبر رہے !


اے جانِ جاں تو ہی تو ہے مقصُودِ کائنات

میرا نشاں رہے نہ رہے تو مگر رہے


اعظمؔ یہ آرزو ہے کہ مرنے کے وقت بھی

صورت حضورؐ کی مرے پیشِ نظر رہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ آئے

شہرِ طیبہ تیرے بازار مہکتے ہوں گے

شاہِ فلک جناب رسالت مابؐ ہیں

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں

ہے سکونِ قلب کا سامان نعتِ مصطفی

ایہہ کون آیا جدِھے آیاں

اللہ نے پہنچایا سرکارؐ کے قدموں میں

میرا دل اور میری جان مدینے والے

جل رہا ہے مُحمّد ؐ کی دہلیز پر

!لب پہ نعت و سلام ہے آقا