آپ شاہد مبشّر نذیر آپ ہیں

آپ شاہد مبشّر نذیر آپ ہیں

آپ داعی سراجِ منیر آپ ہیں


آپ ہی سے ہدایت کے سب سلسلے

آپ ہادی ہیں منذر نذیر آپ ہیں


آپ ہی سے منوّر ہوئے دو جہاں

نُورِ مطلق سے خود مستنیر آپ ہیں


اہل ایماں پہ لازم ہے دیں کی مدد

اہلِ ایماں کے حامی نصیر آپ ہیں


آپ کا رب ہے مولا نصیر آپ کا

ہم فقیروں کے مولا نصیر آپ ہیں


سب یتیموں کے حامی مددگار بھی

سب ضعیفوں کے آقا نصیر آپ ہیں


آپ کا خلق ، خلقِ عظیم اے کریم

حسنِ اخلاق میں بے نظیر آپ ہیں


شہر علم آپ ہیں دارِ حکمت بھی ہیں

فضلِ رب سے علیم و خبیر آپ ہیں


آپ شاہد بھی ہیں آپ مشہود بھی

آپ سامع ، سمیع و بصیر آپ ہیں


آپ احمد ، محمد ہیں ، محمود ہیں

سر بہ سر حمدِ ربِّ کبیر آپ ہیں


سدرہ المنتہیٰ سے وراءالوریٰ

جلوۂ ذاتِ حق کے بصیر آپ ہیں


اب ہو نوری کو کیوں کوئی خوفِ بلا

چارہ گر آپ ہیں دستگیر آپ ہیں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

کس سے مانگیں کہاں جائیں کس سے کہیں

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

کھل جائے مجھ پہ بابِ عنایات اے خدا

نبیؐ کے پائے اقدس سے ہے

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے

یا الہٰی تُو کارسازو کریم !

وجودِ ارض و سما ہے تم سے

وہ کیسا سماں ہوگا، کیسی وہ گھڑی ہوگی

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے