سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

تو سب سے پہلے اس میں نعتِ حضرت کی غزل نکلی


طبیعت ان کے دیوانوں کی اب کچھ کچھ سنبھل نکلی

ہوائے دشتِ طیبہ گلشنِ جنت میں چل نکلی


بڑا دعوٰی تھا خورشیدِ قیامت کو حرارت کا

ترے ابرِ کرم کو دیکھ کر رنگت بدل نکلی


لپٹ کر رہ گئے مجرم ترے دامانِ رحمت میں

قیامت میں قیامت کی ہوا جب تیز چل نکلی


منور کردیا داغِ جگر نے ذرے ذرے کو

مرے جاتے ہی میری قبر میں اک شمع جل نکلی


منوؔر کام آئی حشر میں نعتِ شہِ والا

بہت دل کش، بہت روشن، مری فردِ عمل نکلی

شاعر کا نام :- منور بدایونی

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

بلند میرے نبی سے ہے

زندگی میری ہے یارب یہ امانت تیری

کرتے ہیں تمنّائیں حْب دار مدینے کی

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

اطاعت ربِّ اعلا کی سعادت ہی سعادت ہے

جلوہ فطرت، چشمہ رحمت، سیرتِ اطہر ماشاءاللہ

نور کی شاخِ دلربا اصغر

جہاں ہے منور مدینے کے صدقے

اےحسینؑ ابنِ علی ؑ نورِ نگاہِ مصطفیٰﷺ