ؓمرکزِ علم ہوں کیونکر نہ جنابِ صدیق

مرکزِ عِلم ہوں کیو نکر نہ جنابِ صِدّیق

ایک اِک لفظ محمّد ؐ کا نِصابِ صدّیق


جنبشِ چشمِ رسالت فرسِ عبداللہ

نقشِ پائے شہِ کونَین ، رکابِ صدّیق


جِس کی ہر سانس مشقّت کا اچھوتا شہکار

اُس کے ماتھے کا پسینہ ہے شرابِ صِدّیق


جس کے لہجے میں سُنی ہم نے خُدا کی آواز

اُس نے بُوبکر کو بخشا ہے خطابِ صدّیق


غوطہ زن ، جس کے کناروں سے صَدف چُنتے ہیں

وہ صداقت کا سمندر ہے سرابِ صِدّیق


تان دیں چادرِ انوار، برستی بُونّدیں

آفتابوں کو بھی شرمائے سحابِ صِدّیق


بے زباں ہوگئی تارِیخ قیامت تک کی

نہ جوابِ شہ ِ بطحا نہ جوابِ صِدّیق


ابنِ عثمان کا سایہ ، مِرے اندر کی قبا

کار فرما مِری بینائی میں خواب ِ صِدّیق


ناز ہے مُجھ کو مظفّر کہ مَیں صِدّیقی ہوں

میرے ماضی کی طرف کھُلتا ہے بابِ صِدّیق

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

آئے وہ اور ملی تازگی تازگی

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

ہے دل میں عشقِ نبیﷺ کا جلوہ

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمدﷺ

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

اطاعت ربِّ اعلا کی سعادت ہی سعادت ہے

سب سے اولٰی و اعلٰی ہمارا نبیﷺ

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے