یوں ترا اسم گرامی میرے لب پر آگیا

یوں ترا اسم گرامی میرے لب پر آگیا

جیسے دریا تشنگی کے پاس چل کر آگیا


نرغۂ لہو و لعب میں تھے مِرے ہوش و حواس

جانے تو کس راستے سے میرے اندر آگیا


روضۂ سرکار سے آگے نہ لے جا زندگی

میری اُمیدوں کی بستی، روح کا گھرا آگیا


تیری صورت جس نے دیکھی اُس نے دنیا دیکھ لی

اُس پہ سب در کھل گئے جو تیرے در پر آگیا


جب سے ہو آیا ہوں دربار رسول پاک ﷺ سے

زندگی کرنے کا ڈھب مجھ کو مظفر آگیا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- نورِ ازل

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ آئے

ہر ایک پھول نے مجھ کو جھلک دکھائی تری

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

عرشی فرشی رل کے دین مبارک باد حلیمہؓ نوں

اللہ ہمیں کر دے عطا قُفلِ مدینہ

جل رہا ہے مُحمّد ؐ کی دہلیز پر

سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں

الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے

بطحا سے آئی، اور صبا لے گئی مجھے

زندگی یادِ مدینہ میں گزاری ساری