اک روز ہو گا جانا سرکار کی گلی میں

اک روز ہو گا جانا سرکار کی گلی میں

ہو گا کبھی ٹھکانا سرکار کی گلی میں


آنکھیں تو دیکھنے کو پہلے ہی مضطرب تھیں

دل بھی ہوا روانہ سرکار کی گلی میں


گو پاس کچھ نہیں ہے لیکن یہ دیکھ لے گا

اک دن مجھے زمانہ سرکار کی گلی میں


کبھی ہو حسیں تصور کبھی خود میں جاؤں چل کر

رہے یوں ہی آنا جانا سرکار کی گلی میں


ہیں کہیں خزاں کے پہرے کہیں دو گھڑی بہاریں

موسم سدا سہانا سرکار کی گلی میں


دل میں نبی کی یادیں لب پر نبی کی نعتیں

جانا تو ایسے جانا سرکار کی گلی میں


یہی رسم عاشقی ہے یہی جانِ بندگی ہے

سر رکھ کے نہ اُٹھانا سرکار کی گلی میں


سمجھیں گے ہم نیازی اُن کی کرم نوازی

جس دن ہوئے روانہ سرکار کی گلی میں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

کوئے طیبہ میں کاش گھر ہوتا

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

مصطفےٰ پیارے کا جب ہوگا نظارا حشر میں

سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خواہش

مراد مل گئی کوئی صدا لگا نہ سکے

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

جب کرم ان کے یاد آتے ہیں

اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی

نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا