اعتبارِ نطق ہے گفتارِ خیرؐالانبیاء

اعتبارِ نطق ہے گفتارِ خیرؐالانبیاء

نَو بہارِ خُلق ہے کردارِ خیرؐالانبیاء


حُسن بن کر زیست کے آفاق پر لہرائے گئے

صورتِ قوسِ قزح افکارِ خیرؐالانبیاء


مشعلِ راہِ ہدایت آپؐ کی شرعِ متیں

ہیں دو عالم کو محیط انورِ خیرؐالانبیاء


رنگ و بوئے دہر پامال ِ خزاں ہوجائیگا

کم نہ ہو گی نزہتِ گلزارِ خیرؐالانبیاء


سر جھکائے ہیں فقیر و تاجدار آکر یہاں

اللہ اللہ شوکتِ دربارِ خیرؐالانبیاء


کیوں نہ تائب آبروئے مُصطفےٰ پر جان دیں

موت پر ٹھہرا ہے جب دیدارِ خیرؐالانبیاء

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

تابِ مرآتِ سحر گردِ بیابانِ عرب

محبوب خُدا نوں دو جگ دا سلطان ناں آکھاں تے کی آکھاں

نعت کہتے ہوئے نعت میں ڈوب جا

سجود فرض ہیں اظہارِ بندگی کے لئے

جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا

روشن ہے دو عالم میں مہ رُوئے محمد

چلتے چلتے جو نظر شہرِ مدینہ آیا

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں

کافر کو بھی شعورِ وجودِ خدا دیا

جرمِ عصیاں سے رہا ہونے کا چارا مانگو