ظہور کرتی ہے جس دم سَحر مدینے میں
اذانیں دیتے ہیں دیوار و دَر مدینے میں
گلی گلی میں وہ سیلابِ نُور ہے جیسے
اُتر کے آگئے شمس و قمر مدینے میں
ہوا کے جھونکوں میں خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں
درود پڑھتا ہے اک اک شجر مدینے میں
نہا کے خوشبو میں کوثر سے باوضو ہو کر
ادب سے آتی ہے شام و سحر مدینے میں
حریمِ پاک کی تاصبح پاسبانی کو
فرشتے جاگتے ہیں رات بھر مدینے میں
دیارِ پاک کا موسم بہشت کا موسم
ریاض خُلد ہے ہر رہ گزر مدینے میں
ادب شناس ہے موسم بھی اُس دبستاں کا
کہ محوِ خواب ہیں خیر البشؐر مدینے میں
اِسی امید پہ جاری ہے اب سفر اقبؔال
کہ ہو خدا کرے ختمِ سفر مدینے میں
(سفرِ آخرت پہ روانگی سے کچھ پہلے یہ نعت ہسپتال میں فی البدیہہ لکھوائی گئی )
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم