عطا کر کے مدینے کے سویرے

عطا کر کے مدینے کے سویرے

مٹا دو صحنِ دل کے سب اندھیرے


بلا لو شاہِ بطحاؐ اپنے در پر

بہت بے چین ہیں مشتاق تیرےؐ


گیا بطحا کی جانب جو مسافر

ہوا نے راستوں میں گل بکھیرے


دکھا دو سبز گنبد کی بہاریں

بہت ترسے ہوئے ہیں نین میرے


مہک ہو کیوں نہ بام و در پہ رقصاں

جہاں ہوں عود و عنبر کے بسیرے


تمنا ہے یہی اشفاقؔ میری

لگا لوں سنگِ دروازہ پہ ڈیرے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

خدا جانے کی ہندا حال میرا

آیا دورِ علی حیدر ؑ

آجاؤ رحمتوں کے خزینے کے سامنے

جب ہجرِ طیبہ نے مُجھے مضطر بنا دیا

اُویسیوں میں بیٹھ جا

یاد جدوں آئی طیبا دی

اکھیاں دے بوہے کھلے نیں دل سیج وچھا کے بیٹھا اے

اے خدا مجھ کو مدینے کا گدا گر کردے

نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے

ہے جنت دا سوہنا نشاں اللہ اللہ