بحضورِ رب جھکانا جو جبینِ سر جھکانا

بحضورِ رب جھکانا جو جبینِ سر جھکانا

نہیں لائقِ عبادت کوئی اور آستانہ


ہوئیں ختم بت پرستی کی رسومِ جاہلانہ

ملا ہم کو رب شناسی کا شعورِ عارفانہ


رخِ بے کسانِ عالم پہ مچل گئے تبسم

ہوئے جلوہ گر پیمبر، ہوا شادماں زمانہ


گلِ عدل سے معطر ہوا باغِ آدمیت

کیا مصطفےٰؐ نے نافذ وہ نظامِ عادلانہ


حدِ مصطفیٰؐ کہاں ہے یہ بجز خدائے واحد

نہ کسی بشر نے سمجھا نہ کسی ملک نے جانا


رہِ نعت پر خطر ہے، رہے یہ خیال ہر دم

جو حدیں نبیؐ نے کھینچیں کبھی ان سے بڑھ نہ جانا


ہوئے جس کے آگے بے دم سبھی فتنۂ بغاوت

وہ عتیق کی خلافت کا ہے نظم قائدانہ


ملا خط عمر کا جب سے ہوا خشک پھر نہ دریا

ہوئی ختم نیل کی وہ جو تھی رسم مشرکانہ


رہِ حق میں مال و دولت نہ غنی اگر لٹاتے

کسی اہلِ زر کو آتا نہ متاعِ زر لٹانا


وہ فصیل و بابِ خیبر جو تھے نازشِ ستم گر

کیا ڈھیر ان کو حیدر نے بدستِ فاتحانہ


اسے کیا جلا سکے گی سرِ حشر دھوپ احسنؔ

جسے دامنِ نبیؐ کا ہو نصیب شامیانہ

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

ویکھ لواں اک وار مدینہ

اَکھ روندی اے جد آوا دے دربار دے چیتے آوندے نے

لوحِ محفوظ پہ قرآن کی آیت چمکی

تیرے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم

آئیں کبھی تو ایسے بھی حالات دو گھڑی

ایہ نگری کملی والے دی ایتھوں ملدا چین قرار میاں

جو نغمے نعت کے آنکھوں کو کر کے نم سناتے ہیں

سورج چن ستارے امبر، دھرتی چار چوفیرا

سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

اگر سوئے طیبہ نہ جائے گی ہستی