بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی
لہو میں لذّت ہے راستوں کی
بغیر خوشبو مہک رہا ہُوں
دَرِ نبی کی طرف چلا ہُوں
سکون آمیز بے قراری
ہے میری یکسوئیوں پہ طاری
چلی براقِ کشش پہ لے کر
رسُولِ اکرم کی غم گساری
رسائی ہے بختِ نارسا میں
سِرا ہے اِک دستِ مصطفےٰ میں
مَیں ڈور کا دوسرا سِرا ہُوں
دَرِ نبی کی طرف چلا ہُوں
طوافِ کعبہ تھا فرض مجھ پر
دَرِ نبی کا ہے قرض مجھ پر
سمٹ کے سایہ فگن ہُوا ہے
جہان کا طول و عرض مجھ پر
شریکِ رفتار جو رہے ہیں
وہ فاصلے ختم ہو رہے ہیں
میں آج سے اپنی ابتدا ہوں
دَرِ نبی کی طرف چلا ہُوں
دِکھائی دینے لگا مدینہ
مثال در کُھل رہا ہے سِینہ
ہوائیں حُوروں کے لمس جیسی
فضائیں خُلدِ بریں کا زینہ
کھلے ہوئے بازؤوں سی راہیں
ہر اک مسافر کو اِتنا چاہیں
کہ اُن کی چاہت پہ مر مٹا ہوں
دَرِ نبی کی طرف چلا ہُوں
یہ ساعتِ قیمتی بھی آئی
کہ حاضری کو چلی جُدائی
دھڑک رہے ہیں حواسِ خمسہ
لرز رہی ہے برہنہ پائی
بہشتِ عالم ہے یہ علاقہ
قدم قدم نقشِ پائے آقا
زمیں کے شیشے میں دیکھتا ہوں
دَرِ نبی کی طرف چلا ہُوں
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی