بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا

بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا

سُورج اُنھوں نے دستِ سوالی پہ رکھ دیا


آنکھیں بکھیر آیا ہُوں روضے کے ہر طرف

لیکن خیال روضے کی جالی پہ رکھ دیا


لبریز کر گیا مجھے کون اپنے پیار سے

یہ کِس نے ہونٹ دل کی پیالی پہ رکھ دِیا


مانگے تھے مَیں نے آپ سے رحمت کے چند پھُول

سارا چمن دُعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا


مُجھ کو بٹھایا جانبِ ساحل کی ناؤ پر

بارِ گُناہ ڈُوبنے والی پہ رکھ دیا


لکھنے چلا جو نعت تو میرے حضور نے

لفظوں کا ڈھیر ذہن کی تھالی پہ رکھ دِیا


آہنگ نُو میں نعتِ مظفّر نہ کیوں کہے

کھِلتا شعور خُشک خیالی پہ رکھ دیا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

فاصلے جتنے ہیں سرکار مٹائیں گے ضرور

آپ شاہد مبشّر نذیر آپ ہیں

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے

اے سرورِ کون و مکاںؐ صلِ علیٰ صلِ علیٰ

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے

اے نقطۂِ سطوحِ جہاں ! اے مدارِ خلق

یاخدا ہر دَم نگہ میں اُن کا کاشانہ رہے

شیریں ہے مثلِ حرفِ دُعا نام آپؐ کا