در محبوب سے ہٹ کر گزارہ ہو نہیں سکتا

در محبوب سے ہٹ کر گزارہ ہو نہیں سکتا

یہ وہ در ہے کہ اس در سے کنارا ہو نہیں سکتا


رہے گردش میں قسمت کا ستارہ ہو نہیں سکتا

نبی کا نام لیوا غم کا مارا ہو نہیں سکتا


نہیں ہے پیار جس کے دل میں کملی والے آقا کا

قسم رب کی کبھی رب کا وہ پیارا ہو نہیں سکتا


نظارا میری آنکھوں نے کیا ہے سبز گنبد کا

اب اس سے بڑھ کے کوئی بھی نظارا ہو نہیں سکتا


نبی کے آستاں کو چھوڑ دوں کیسے ممکن ہے

میں مر جاؤں گا لیکن یہ گوارا ہو نہیں سکتا


زباں محو درود پاک رکھو ہر گھڑی اپنی

یہ ایسا کام ہے جس میں خسارا ہو نہیں سکتا


تمنا ہے کہ پھر دیکھوں میں جلوے سبز گنبد کے

کرم کیا مجھ پہ یہ آقا دوبارہ ہو نہیں سکتا


نہیں ہے جس کی آنکھوں میں بصیرت نور ایماں کی

اُسے آقا کے جلووں کا نظارا ہو نہیں سکتا


وہ دنیا کے حوادث ہوں یا میدان قیامت ہو

بغیر مصطفیٰ کوئی سہارا ہو نہیں سکتا


تقاضہ ہے نیازی یہ میرا ایمان کامل ہے

جسے نسبت نہیں ان سے ہمارا ہو نہیں سکتا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

یا شہِ ارض و سما امداد کو آجائیے

صبا جاویں مدینے نوں میرے دل دی صدا بن کے

بلغ لعُلےٰ بکمالہِ

مرے جذبوں کو نسبت ہے فقط اسمِ محمد سے

پہنچاں مدینے چھیتی کتے ساہ نکل نہ جاوے

وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

فکر و فن حرفِ سخن نکتہ رسی مبہوت ہے

اُمنگیں جوش پر آئیں اِرادے گدگداتے ہیں

اگر سوئے طیبہ نہ جائے گی ہستی