دیکھ کر روضۂِ سرکار کی رعنائی کو
موت آجاتی ہے ہر حسن کی زیبائی کو
بندۂِ عشق ہے لازم ہے جبیں سائی کو
سنگِ در چاہئے ان کا سرِ سودائی کو
اے خیالِ رخِ جاناں تِرے صدقے جاؤں
تو نے آباد کیا ہے مِری تنہائی کو
خواب میں آ کے کبھی جلوہ دکھاکر اپنا
محترم کیجئے آقا مِری بینائی کو
آپ کے ساز کو کیا چاہئے وہ جانیں آپ
نعتِ سرکار پسند ہے مِری شہنائی کو
سیرتِ احمدِ مختار سے بہتر کیا ہے
عام کرنا ہے اگر دنیا میں اچھائی کو
کیا بتاؤں کہ تِرے زیرِ قدم ہے سب کچھ
آسماں بھی ہے بہت کم تری اونچائی کو
ان کی عظمت کوئی معراج کی شب سے پوچھے
لامکاں بھی تھا شفیقؔ اُن کی پذیرائی کو
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا