دیکھ کر روضۂِ سرکار کی رعنائی کو

دیکھ کر روضۂِ سرکار کی رعنائی کو

موت آجاتی ہے ہر حسن کی زیبائی کو


بندۂِ عشق ہے لازم ہے جبیں سائی کو

سنگِ در چاہئے ان کا سرِ سودائی کو


اے خیالِ رخِ جاناں تِرے صدقے جاؤں

تو نے آباد کیا ہے مِری تنہائی کو


خواب میں آ کے کبھی جلوہ دکھاکر اپنا

محترم کیجئے آقا مِری بینائی کو


آپ کے ساز کو کیا چاہئے وہ جانیں آپ

نعتِ سرکار پسند ہے مِری شہنائی کو


سیرتِ احمدِ مختار سے بہتر کیا ہے

عام کرنا ہے اگر دنیا میں اچھائی کو


کیا بتاؤں کہ تِرے زیرِ قدم ہے سب کچھ

آسماں بھی ہے بہت کم تری اونچائی کو


ان کی عظمت کوئی معراج کی شب سے پوچھے

لامکاں بھی تھا شفیقؔ اُن کی پذیرائی کو

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

ہوں جو یادِ رُخِ پرنور میں مرغانِ قفس

زمین و آسمان جُھومے عقیدت کا سلام آیا

میں فنا اندر فنا ہوں تُو بقا اندر بقا

سرکار دی چوکھٹ تے ہووے عمر بسر میری

بن جائے یہ ہماری علامت خدا کرے

جس طرف سے وہ گُلِ گُلشنِ عدنان گیا

محتاط قلم رکھنا سرکار کی مدحت میں

یا رب مجھے بُلانا دربارِ مصطفیٰ میں

ماہِ ذیشان ربیع الاوّل

کر نظر کرم دی محبوبا بیکس ہاں میں لاچار ہاں میں