گزر ہونے لگا ہے روشنی کا
کوئی ڈر ہی نہیں تیرہ شبی کا
محمد کے سفینے میں بٹھا دو
بھروسہ اب کہاں ہے زندگی کا
بشر کو دی محمد کی جو صورت
مقدر دیکھیے اس آدمی کا
مدینہ چومنے جانا تُو اے دل
نشہ ہو گا وہاں پر تازگی کا
پلائیں گے ہمیں وہ آبِ کوثر
کوئی حل تو ہوا اس تشنگی کا
خدایا کب مدینے کا سفر ہو ؟
ہمیں موقع ملے کب دل لگی کا
سمیٹیں گے جزا کے دن وہ دکھ میں
شبہ ہم کو نہیں آشفتگی کا
بشر ہو غمزدہ کوئی نہ قائم
انہیں خضرٰی میں دکھ ہے ہر کسی کا
شاعر کا نام :- سید حب دار قائم
کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن