ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

ہے دعا میری مدینے کا سفر ہو جائے

ہجر کی رات کٹے اور سحر ہو جائے


کاش آ جائیں وہ گھڑیاں کہ بلا لیں آقا

زندگی آپ کی چوکھٹ پہ بسر ہو جائے


فرطِ جذبات سے چوموں وہ سنہری جالی

میری قسمت میں بھی یہ لمحہ اگر ہو جائے


جس گھڑی پیش کروں ان کو درود اور سلام

اس گھڑی ناز پہ ان کی بھی نظر ہو جائے


عمر بھر کرتی رہوں شاہِ دو عالم کی ثنا

میرا ہر شعر درِ شہ پہ امر ہو جائے


ہے تمنا یہ کہ مقبول ہو مدحت جو کروں

میرے اشعار میں اتنا تو اثر ہو جائے


ناز ہو جائے غلامی کی جو نسبت اُن سے

سجدۂ شکر کے قابل مرا سر ہو جائے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہمیں کوچہ تمہارا مِل گیا ہے

تصورِ درِ کعبہ میں وہ مزا ہے کہ بس

رہبر ہے رہنما ہے سیرت حضور کی

بشر بھی ہے بشریت کا افتخار بھی ہے

عالم کی ابتدا بھی ہے تُو انتہا بھی تُو

وہ گھر وہ کوچہ وہ قریہ مکانِ رحمت ہے

عصیاں سے تطہیر ملی

میں چلتا ہوں جو سر اپنا اُٹھا کے

تیرے نام سے ہی تو میرا بھرم ہے

کدی آقا در تے بلا سو کہ ؟ کوئی ناں