ہَر کلی دِل کی مُسکرائی ہے

ہَر کلی دِل کی مُسکرائی ہے

جب مدینے کی یاد آئی ہے


ہے رُخِ مُصطفےٰ وہ آئینہ

جِس میں خالِق کی رو نمائی ہے


شافعِ عَاصیاں محمدؐ ہیں

بات اپنی بنی بنَائی ہے


غم کا مارا ہوں بے سَہارا ہوں

لاج والے تِری دُھَائی ہے


دَردِ عِشق نبی خدا رکھے !

بے کسی کی یہی کمائی ہے


بزمِ کونین! یارسول اللہ ؐ

تیرے جلوؤں سے جگمگائی ہے


کیوں نہ مشکل کشا کہوں تم کو

تم نے بِگڑی ِ مِری بنائی ہے


ہے تصّور میں گنبدِ خِضرا

بس یہی میری پارسائی ہے


اس کی کشتی کو خوف کیا جِس نے

کملی والے سے لَو لگائی ہے


جِس کے ہاتھوں میں ان کا دامن ہے

اس کے قبضے میں سب خدائی ہے


ہیں شہنشاہ تیرے در کے گدا

بادشاہی تِری گدائی ہے


ایسے مستوں کا کیف کیا کہنا

جِن کو سرکارؐ نے پِلائی ہے


نزع میں ، قبر میں ، سرِ محشر

آپؐ کی یاد کام آئی ہے


رحمتِ دو جہاں تِرے صدقے

سَب نے مُنہ مانگی بھیک پائی ہے


اُن پہ ہر دم دُرود پڑھ خالدؔ

کہ یہی شغلِ کِبریائی ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

اج کیف دی بارش ہندی اے آج نہراں وگن سرور دیاں

سر محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

پادے آمنہ توں لعل میری جھولی حلیمہ ایہو خیر منگدی

میرے دل میں ترے قدموں کے نشان ملتے ہیں

بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

بدن میرا یہاں پر ہے مگر ہے جاں مدینے میں

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

نہ فکر مند ہو دامن میں جس کے زر کوئی نئیں

ہر ذرّۂ وجود سے اُن کو پُکار کے

محبوب خدا نوں ہر شے دا مختار نہ آکھاں کیہہ آکھاں