حریمِ قلب سنگِ در سے لف رکھا ہوا ہے

حریمِ قلب سنگِ در سے لف رکھا ہوا ہے

یہ دھیان اپنا مدینے کی طرف رکھا ہوا ہے


روایت کے مطابق ان کا استقبال ہوگا

کہ ہم نے دل نہیں سینے میں دف رکھا ہوا ہے


نظر فرمائیں گے تو گوہرِ نایاب ہوگا

درِ سرکار پر دل کا خذف رکھا ہوا ہے


سرِ افلاک جس کی دھوم ہے وہ سبز گنبد

زمیں کی گود میں گویا صدف رکھا ہوا ہے


کوئی تو بارگاہِ نعتِ میں مقبول ہوگا

ہر اک حرفِ سخن کو صف بہ صف رکھا ہوا ہے


سرِ مژگاں سجا کر خواب کی خواہش کے دیپک

بس اک دیدار آنکھوں کا ہدف رکھا ہوا ہے


مشاغل کھو چکے ہیں دل کشی اشفاق ناعت

فقط اک نعت گوئی کا شغف رکھا ہوا ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

کردا ہاں میں دعاواں کردا ہاں میں دعاواں

تاجدارِ انبیا، اہلاًوَّسَہلاًمرحبا

سن عرضاں میریاں غماں نے گھیریاں

مرے لج پال کے جو چاہنے والے ہوں گے

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

سدناں حضور کدوں ایس گنہگار نوں

محمد مصطفے آئے بہار آئی بہاراں تے

اک اچھی نعت ضروری ہے زندگی کے لیے

انبیا کے سروَر و سردار پر لاکھوں سلام

چل چلئے مدینے دُکھ دُور ہوون گے