حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

تو میناروں کا دیکھوں جگمگانا یا رسول اللہ


مرے آقا زیارت کو ترستی ہیں مری آنکھیں

زیارت کا عطا ہو آب و دانہ یا رسول اللہ


سنہری جالیوں میں وہ چمکتی نور کی کرنیں

کبھی دیکھوں میں یہ منظر سہانا یا رسول اللہ


قرار آئے جو بیٹھوں گنبدِ خضرا کے سائے میں

درِ اقدس پہ مل جائے ٹھکانہ یا رسول اللہ


کبھی ایسی گھڑی آئے کہ دیکھوں آپ کا جلوہ

مری آنکھوں سے یہ پردہ اٹھانا یا رسول اللہ


مرا تو ہجر میں اک پل بھی جینا ہو گیا مشکل

خدارا ! ناز کو پھر سے بلانا یا رسول اللہ

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہم خاک مجسم ہیں مگر خاکِ حرم ہیں

فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے

تیرے کوچے سے جس کا گزر ہو گیا

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

اونچوں سے اونچی میری سرکار ہے

ہر ویلے لگی رہندی اے اکھیاں نوں تاہنگ مدینے دی

نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے

دل میرا چھیڑی بیٹھا اے اج درد تے غم دیاں تاراں نوں

منم ادنیٰ ثنا خوانِ محمّدؐ

سکینت دل کی تیری ہی بدولت ساتھ رہتی ہے