ہم آئے ہیں لَو اُن کے در سے لگا کے

ہم آئے ہیں لَو اُن کے در سے لگا کے

اُنہیں اپنا ملجا و ماوٰی بنا کے


ہر اک رنج و غم میں اُنہی کو پکارا

وہ بخشیں گے فرحت مدینے بلا کے


میں پہنچا ہوں دربارِ فریاد رس میں

’’ہوا بوجھ ہلکا غمِ دل سُنا کے‘‘


کیا ذکر اُونچا ہے اُن کا خُدا نے

جہاں میں ہیں چرچے مرے دلرُبا کے


وہ معراج کی شب ،نبی مرسلیں سب

کھڑے مقتدی منتظِر مقتدا کے


گنہ گار ہوں ، سر اُٹھاؤں تو کیسے

کھڑاہوں ندامت میں سر کو جُھکا کے


یہ اُمید ہے درگزر وہ کریں گے

سُناؤں گا دُکھڑے جو آنسو بہا کے


وہ ٹوٹے ہوئے دل کا غم جانتے ہیں

اگرچہ میں بیٹھا ہوں آنسو چُھپا کے


ابوبکر پر میری جاں ہو تصدق

کہ صدیق پیکر ہیں صدق و صفا کے


تو فاروقِ اعظم تری نیکیاں جو

ہوئی ہیں برابر نجومِ سما کے


حیا ان سے کرتے ہیں قدسی فلک پر

کہ منبع ہیں عثمانؓ شرم و حیا کے


صحابی تو ہیں وہ مگر اِس سے پہلے

علی ہیں برادر شہِ انبیا کے


شبیہِ پیمبر ﷺ ، جنابِ حسنؓ ہیں

کہ ہر سمت چرچے ہیں فہم و ذکا کے


تہِ تیغ سجدے، سِناں پر تلاوت

کہ انداز ہیں یہ شہِ کربلاؓ کے


جلیلِ حزیں آ کے در پر کھڑا ہے

تِری آل کو یہ وسیلہ بنا کے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

طلعتِ رُخ سے لحد میں چاندنا فرمائیے

یہ جو قرآن مبیں ہے رحمتہ اللعالمین ﷺ

کتنے خوش بخت غم کے مارے ہیں

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے

رحمت برس رہی ہے محمد کے شہر میں

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

شوقِ طلب نہاں نہاں حرفِ سخن جلی جلی

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

میرا مولا اے دو عالم دا والی