جذبۂ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے

جذبۂ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے

اپنی کوتاہ نگاہی کا خیال آتا ہے


جب بھی آجاتا ہے سہواً کبھی جنّت کا خیال

تیرا مسکن ترا در سَامنے آجاتا ہے


حق نے جس شہر کے ذرّوں کی قَسَم کھائی ہو

واں اُبھرتے ہُوئے خورشید بھی شرماتا ہے


دیکھ کر وسعتِ دامانِ کَرم حشر کے دن

میرا دامانِ طَلَب آپ ہی شرماتا ہے


کوئی روتا ہے تو بھر آتی ہیں آنکھیں میری

میں سمجھتا ہُوں مدینہ اِسے یاد آتا ہے


نعت کا رنگ جو بدلا تو میں سمجھا اعظؔم

پہلے میں کہتا تھا اب کوئی کہلواتا ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

مدینے کو جاؤں مِری جستجو ہے

مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

بنی اے جان تے بھاری مصیبت یارسولؐ اللہ

خیر کی خیرات بھی خیر الورٰی

شب غم میں سحر بیدار کر دیں

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

اجل، دیارِ رسالت میں آئے راس مجھے