کیسے ممکن ہو مدحت سرائی تِری

کیسے ممکن ہو مدحت سرائی تِری

یہ زباں اور آقا بڑائی تِری


ظلمتوں کا نہیں کوئی نام و نشاں

جب سے تصویر دل میں بنائی تِری


پڑھ رہا تھا میں قرآن کی آیتیں

ہوگئی آقا مدحت سرائی تِری


ہاتھ باندھے فصاحت کھڑی ہے جہاں

میرے آقا ہے وہ لب کشائی تِری


تیرے بِستر کو مخمل ترستے رہے

رشک کمخاب ٹوٹی چٹائی تِری


تیرا ہمسر نہیں ہے کوئی دوسرا

یا نبی ہے مسلم اکائی تِری


قیدِ بغضِ نبی سے نکل نا سمجھ !

حشر میں پھر نہ ہوگی رہائی تِری


کس لئے خوفِ محشر شفیقِؔ حزیں

نعتِ پاکِ نبی ہے کمائی تِری

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں

پَردہ با پَردہ نگاہوں سے اُٹھا آج کی رات

نبیوں کے نبی

محبت کو قلم میں ڈال کر حرفِ ثنا لکھ دے

دل میں ترا پیغام ہو آقائے دو عالم ؐ

نئی آواز تھی لہجہ نیا تھا

اپنے بیمار نوں دامن دی ہوا دیندے نے

اپنے عملّاں اُتّے سنگاں

کیوں دروازہ دیکھوں کسی سکندر کا

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں