خاموش سی اک طرز فغاں لے کے چلا ہوں

خاموش سی اک طرز فغاں لے کے چلا ہوں

آنکھوں سے نہاں اشک رواں لے کے چلا ہوں


سرکار کے قدموں سے جبیں، عرش معلے

محراب کے سجدوں میں نشاں لے کے چلا ہوں


اب گنبد خضری کے سوا عکس، نہ منظر

آنکھوں میں محبت کا بیاں لے کے چلا ہوں


نام اُن کا مرے واسطے ہے محضر برات

میں صاحب کوثر سے اماں لے کے چلا ہوں


ہر قید زماں اور مکاں ہے مری نخچیر

جو زندہ رہے اب وہ سماں لے کے چلا ہوں


طیبہ کی ہر اک راہ مری راہ نما ہے

سرکار کے قدموں کے نشاں لے کے چلا ہوں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مدحتِ شافعِ محشر پہ مقرر رکھا

وہی ماحول کی پاکیزہ لطافت دیکھی

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

دلِ ناداں نہ حرصِ دُنیا کر

اللہ! مجھے حافِظِ قُراٰن بنادے

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

یہ کس کا تذکرہ عرشِ عُلا تک

درِ نبیﷺ پر پڑا رہوں گا

خواب روشن ہو گئے مہکا بصیرت کا گلاب