کوئی مثل مصطفےٰ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کوئی مثل مصطفےٰ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


انہیں خلق کر کے نازاں ہوا خود ہی دست قدرت

کوئی شاہکار ایسا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


کسی وہم نے صدا دی کوئی آپ کا مماثل

تو یقیں پکار اُٹھا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


مرے طاقِ جاں میں نسبت کے چراغ جل رہے ہیں

مجھے خوف تیرگی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


مرے دامن طلب کو ہے انہی کے در سے نسبت

کہیں اور سے یہ رشتہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


میں ہوں وقفِ نعت گوئی کسی اور کا قصیدہ

مری شاعری کا حصہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا


سر حشر ان کی رحمت کا صبیحؔ میں ہوں طالب

مجھے کچھ عمل کا دعویٰ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

ہر پاسے عربی ماھی دے انوار دیاں تنویراں نے

مائلِ جور سب خدائی ہے

تمہاری یاد جو دل کا قرار ہو جائے

چاند،سورج میں،ستاروں میں ہے جلوہ تیرا

ہم اپنی حسرتِ دِل کو مٹانے آئے ہیں

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا

یا نبی یا نبی یا نبی آپ ہیں

رُلا دیتی ہے پاکیزہ مدینے کی ہوا مجھ کو

تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

غماں نے بولیا آکے ہے دھاوا یا رسول اللہ