کُوئے نبی سے آنہ سکے ہم راحت ہی کچھ ایسی تھی
یاد رہی نہ جنّت ہم کو جنّت ہی کچھ ایسی تھی
تکتے رہے یُوسف جیسے حشر میں اُن کے چہرے کو
جب پُوچھا تو کہنے لگے وہ صُورت ہی کچھ ایسی تھی
بولو اے جبریلؑ کہ ان کے کیوں کرتلوے چومے تھے
کہنے لگے جبریلؑ کہ ان کی عظمت ہی کچھ ایسی تھی
پاس بُلایا پاس بِٹھایا عرش پہ اُن کو خالق نے
یہ تو آخر ہونا ہی تھا چاہت ہی کچھ ایسی تھی
اصغر اکبر عون و محمد دین پہ وارے ہنس ہنس کے
یُوں لگتا ہے دین نبی کی قیمت ہی کُچھ ایسی تھی
دُنیا میں سرکار کی نعتیں پڑھتے رہے ہر اِک لمحہ
قبر میں بھی نعت لبوں پر عادت ہی کچھ ایسی تھی
قبر میں حاکؔم جب پہنچے تو ہنس کر نکیروں نے دیکھا
کیوں نہ فرشتے پیار سے مِلتے نِسبت ہی کچھ ایسی تھی
شاعر کا نام :- احمد علی حاکم
کتاب کا نام :- کلامِ حاکم