کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں

ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں


اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں

ہاں دیکھنے سے ہے ساری بہار آنکھوں میں


نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے

کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں


یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھ میں نہ آجائے

کہ پھر رہا ہے کسی کا خُمار آنکھوں میں


کیا سوال قبر میں کہ کس کے بندے ہو

لو دیکھ لو یہ ہے تصویر ِ یار آنکھوں میں


اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں

ہاں دیکھنے سے ہے ساری بہار آنکھوں میں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

ہے یہ جو کچھ بھی جہاں کی رونق

ایک امی لقب ہے جو محبوب رب پہنچا عرش علی آج کی رات ہے

سراپا عکسِ حق روئے مبیں ہے

کہاں ملتی مسرت دور رنج و غم کہاں ہوتے

عطائے ربّ ہے جمالِ طیبہ

چل قلم اب حمدِ رب مقصود ہے

اگلے نبیوں کو رب نے سنایا ہے سچ

کیے کون و مکاں روشن تری تنویر کے قرباں

سن سن کے گلاں یار دیاں اج ہویاں مست ہواواں نے

جو بشیرؐ ہے جو نذیرؐ ہے