لیے دستِ کرم میں فیض کا دریا بلاتے ہیں

لیے دستِ کرم میں فیض کا دریا بلاتے ہیں

چلو تشنہ لبو بطحا شہِ بطحا بلاتے ہیں


شجر فرطِ مسرت میں چلا سوئے نبیؐ فوراً

ملا جب حکم چل تجھ کو شہ ِوالا بلاتے ہیں


چلو اے غم کے مارو ہاشمی دہلیزِ رحمت پر

ولانے غم سے راحت مونسِ دنیا بلاتے ہیں


عجب ہے آج عالم اضطرابِ دیدِ طیبہ کا

یہ لگتا ہے مدینے سے مجھے آقاؐ بلاتے ہیں


کرم تو شافعِ محشرؐ کا دیکھو اپنی امت کو

شفاعت کے لیے خود ہی شہِ والا بلاتے ہیں


نہیں امت میں کوئی حضرتِ صدیق کا ثانی

انھیں بعد از نبیؐ سب افضل و اعلیٰ بلاتے ہیں


کوئی دیکھے تو عظمت عہدِ فاروقِ معظم کی

بنامِ عہدِ زریں ہم ہی کیا اعدا بلاتے ہیں


ملی عثمان کو وہ دولتِ حلم و حیا رب سے

ملائک بھی انھیں حلم و حیا والا بلاتے ہیں


سوا ہو جاتی ہے تب اور ہی شانِ ید اللٰہی

علی کو جب بنامِ بو تراب آقاؐ بلاتے ہیں


نسیمِ صبحِ طیبہ کاش یہ مژدہ سنا جائے

تجھے احسنؔ مکینِ گنبدِ خضریٰ بلاتے ہیں

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

حبِ نبیؐ اگر ترے سینے میں نہیں ہے

خیر وی خیر الوریٰ وی آپ نیں

رکھ لیں گے ہم جو سیرتِ سرکار سامنے

ہم کو کیا مل گیا ہے چاندنی سے ‘ ہم کو کیا دے دیا روشنی نے

جو ہے نعتِ سرور سنانے کے قابل

لِکھ رہا ہوں نعتِ سَرور سبز گُنبد دیکھ کر

انوار دی بارش ہندی اے درداں دی دوا ہو جاندی اے

اے کاش کہ آجائے عطارؔ مدینے میں

میرے آقاﷺ اپنے دل کا حال میں کس سے کہوں

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا