میں سیہ کار خطا کار کہاں

میں سیہ کار خطا کار کہاں

بزمِ کونین کے سردارؐ کہاں


خواہشِ دیدِ نبیؐ ہے دل میں

ورنہ بندوں سے مجھے پیار کہاں


دونوں عالم نے گواہی دی ہے

آپؐ سا صاحبِ کردار کہاں


حسنِ یوسفؑ بھی بجا ہے لیکن

آپؐ سا رُوئے ضیا بار کہاں


آپؐ نے بھانپ لیا حالِ زبوں

مجھ میں تھی جرأتِ اظہار کہاں


میری تخلیق میں ہے خاکِ عجم

شاہِ کونینؐ کا دربار کہاں


یہ تو ہے اُنؐ کی عنایت اشفاقؔ

میں کہاں؟ سیدِ ابرارؐ کہاں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

کرو نہ واعظو! ، حور و قصور کی باتیں

احمدِ مجتبیٰ سے مطلب ہے

درود آپ کی نرمیِٔ صُلح جُو پر

کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارؐ ِ مدینہ

یہ سروری ہے بھلا کیا سکندری کیا ہے

کی پُچھدا ایں میرا حال مدینے جاوندیا

دل میں ترا پیغام ہو آقائے دو عالم ؐ

ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

ہر شے خدا نے بنائی اے سوہنے مدنی دے واسطے

تیرگی کو سحر کر لیا جائے تو؟