میرے ہونٹوں پر ثنا ہے احمدِ مختار کی

میرے ہونٹوں پر ثنا ہے احمدِ مختار کی

ہو گئی چشمِ کرم مجھ پر شہِ ابرار کی


نعت کے صدقے ملی ہیں دو جہاں کی نعمتیں

اور تو اوقات کیا تھی میری اوگن ہار کی


روشنی سے بھرگئی ہیں زندگی کی ساعتیں

جب سے دیکھی ہے ضیا اس مہبطِ انوار کی


شہرِ بطحا کی ہواؤں سے ہوئی ہے دوستی

مشک دے جاتی ہیں مجھ کو گنبد و مینار کی


کاش پوری ہو کبھی میرے بھی دل کی آرزو

زندگی میں پھر کبھی ہو حاضری دربار کی


دل تڑپتا ہے سنہری جالیوں کو دیکھ لوں

یاد آتی ہے بہت روشن در و دیوار کی


جب سے دیکھا ہے مدینہ اور کچھ بھاتا نہیں

پھیکی لگتی ہیں مجھے اب رونقیں سنسار کی


گر مقدر رنگ لائے جا بسوں طیبہ نگر

ہر گھڑی کرتی رہوں میں چاکری سرکار کی


ناز کے بس میں کہاں توصیف ان کی کرسکوں

آیتوں میں ہے گواہی آپ کے کردار کی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

بارہ ربیع الاول کے دن اتری جو لاہوتی شعاع

عشق دیاں اگاں نئیوں لائیاں جاندیاں

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

ماه میلاد دی باراں تاریخ آج

جیہڑے محرم راز حقیقت دے

ساہ مُکدے مکدے مُک گئے نے جند مکدی مُکدی مک گئی اے

تپتی دُھوپ

تِرا شکریہ تاجدارِ مدینہ

اَلَا یٰایُّھَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَاْسًاوَّ نَاوِلْھَا

جامِ وحدت ساقیٔ کوثر کے پیمانے کا نام