مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

ذرا ان کی محفل سجا کے تو دیکھو


سکوں ہوگا حاصل دلِ مضطرب کو

خیال ان کا دل میں بسا کے تو دیکھو


یہ کیوں کہتے ہیں ہم مدینہ مدینہ

کبھی تم مدینے میں جا کے تو دیکھو


سلاموں کے گجرے، درودوں کی ڈالی

ذرا آنسوؤں سے سجا کے تو دیکھو


وہ ہے سامنے میرے آقاؐ کا روضہ

نگاہوں کو اپنی اٹھا کے تو دیکھو


ظہوریؔ کرم شاملِ حال ہوگا

مصیبت میں ان کو بلا کے تو دیکھو

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

پھر ابر کرم برسا رحمت کی گھٹا چھائی

تیری گلیوں پہ ہو رہی ہے نثار

ذرہ قدموں کا ترے چاند ستارے جیسا

منزل کا نشاں ان کے قدموں کے نشاں ٹھہرے

وہ دن بھی بھلا ہوگا قسمت بھی بھلی ہوگی

بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

ہر سوالی جہاں اپنی جھولی بھرے اس درِ مصطفیٰ کی سدا خیر ہو

جلوہ گر حضورؐ ہو گئے

کرم چار سو ہے، جدھر دیکھتا ہوں

شبِ انتظار میں سو گیا وہ مرا نصیب جگا گئے