نام پر ان کے جو مرا ہی نہیں
بندئہ عشقِ وہ ہوا ہی نہیں
اُن سے بہتر کوئی ہے دور کی بات
اُن کا ہمسر کوئی ہوا ہی نہیں
بخش دیتا ہے سب، کرم اُن کا
چاہئے کیا، یہ پوچھتا ہی نہیں
نعت لکھتا ہوں صبح و شام اُن کی
اب کوئی اور مشغلہ ہی نہیں
کیوں یہ کہتے ہو جائو طیبہ سے
دل ہمارا ابھی بھرا ہی نہیں
دھڑکنوں تک درود کیا پہنچا
دل کو لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں
وہ عبادت بھی کیا عبادت ہے
جس میں عشقِ شہِ ہُدا ہی نہیں
پڑھ لیا کر درودِ پاک شفیقؔ
اس کے جیسی کہیں شفا ہی نہیں
ان کو صادق کہو امین کہو
لا مکاں کا انہیں مکین کہو
بیٹھ کر مصطفےٰ کی چوکھٹ پر
آسمانوں کو بھی زمین کہو
کُل جہاں کو گمان کہہ دو مگر
مصطفےٰ کو مِرے یقین کہو
جس کی مرہون ہے ذہانت بھی
میرے آقا کو وہ ذہین کہو
جو مکمل ہے از رہِ فطرت
دینِ اسلام کو وہ دین کہو
جو ہے گستاخ میرے آقا کا
اس کو مرتد لکھو لعین کہو
شعر پڑھ کر شفیقِؔ عاصی کے
مرحبا بولو آفرین کہو
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت