حرفِ سخن پہ نعت نے کتنا بڑا کرم کیا

حرفِ سخن پہ نعت نے کتنا بڑا کرم کیا

جامِ سفالِ حرف کو، چھوتے ہی جامِ جم کیا


جب بھی وفورِ شوق نے، جوعِ نعوت کو چھوا

قاسمِ رزق نے مجھے، رزقِ سخن بہم کیا


اپنے قلم کو دربدر ، ہونے نہیں دیا کبھی

صرف برائے مدحِ شہ، خامۂ عجز خم کیا


ماں نے سنائیں رات دن، نعتِ نبی کی لوریاں

پڑھ کے حضور پر درود، بابا نے مجھ پہ دم کیا


پیشِ حضور سر بہ خم ،لے کے حضوریوں کا حظ

اشکوں سے ہو کے با وضو ،حرفِ ثنا رقم کیا


حبِ نبی نے کر دیا، قلبِ حزیں کو مشکبو

یادِ نبی کے آب نے، آنکھوں کو محترم کیا


پلکیں وفورِ عجز سے، سوئے حرم جھکی رہِیں

آنکھوں نے شہرِ نور میں، سجدہ قدم قدم کیا


کر کے تصورِ حضور، سنگِ درِ رسول پر

چھو کے نعالِ شاہِ دیں ، ہجر کا درد کم کیا


مہکے ہماری یاد میں، جب بھی نفوسِ کربلا

راحتیں رکھ کے طاق پر، آلِ نبی کا غم کیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

عجب ہے رنگ عجب ہے فضاء مدینے میں

پلانے کی تمنا ہے نہ پینے کی تمنا ہے

دل سے خیال گنبد خضری نہ جائے گا

درِ نبیؐ پہ بٹ رہی ہیں صبح و شام رفعتیں

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں

مدینہ جائے قرا رِجاں ہے مدینہ مسکن ہے راحتوں کا

جو بے وسیلۂ محبوبِؐ کبریا اُٹّھے

سوہنیاں دے سردار نبی جی

ہمیں عظمتوں کا نشاں مل گیا ہے