راحت بجاں معطّر وہ دل فزا تھا ہاتھ

راحت بجاں معطّر وہ دل فزا تھا ہاتھ

عنبر فشاں ہو جیسے وہ مخملیں سا ہاتھ


جذبہ طلب کا مجھ میں ہوتا نہ تھا کبھی

رحمت نے اس کی بڑھ کر تھاما تھا میرا ہاتھ


گل کی لطافتیں ہیں جس پر نثار پیہم

ہے کتنا نرم و نازک میرے نبی کا ہاتھ


دامن میں لے کے خوشبو زلفِ حبیب کی

خوشبوئیں بانٹتا ہے دستِ صبا کا ہاتھ


شاہوں کی بھیڑ ہے کیوں در پرلگی ہوئی

اٹھا ہے شاید ان کی جود و سخا کا ہاتھ


آؤ کریم کے در دنیا کے غمزدو

ہر غم کو ٹالتا ہے اس غم کشا کا ہاتھ


میری نجات کو بس کافی ہے یہ ظفر

رہتا ہے سر پہ میرے آلِ عبا کا ہاتھ

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

یا مصطفٰی خیرالوریٰ تیرے جیا کوئی نہیں

بطحا کو جانے والے

حسنِ اسلام کا ہے علم جسے

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

سو بسو تذکرے اے میرِؐ امم تیرے ہیں

اِک نعت لکھی ہے ہم نے بھی

جیتا ہوں مرے آقا

اُن کا خیال دل میں ہے ہر دم بسا ہوا

ہو جائے دل کا دشت بھی گلزار ،یا نبی