رنگ ہستی نکھر نکھر جائے

رنگ ہستی نکھر نکھر جائے

چشم رحمت جدھر جدھر جائے


تیرا منگتا نہ در بدر جائے

تری دہلیز پر ہی مرجائے


مرے وارث مرے غریب نواز

مرا کشکول آج بھر جائے


آرزو ہے کہ میری عمر تمام

یاد سرکار میں گزر جائے


فرش تو فرش ہے مرے آقا

عرش پر بھی تری نظر جائے


جو بھی آیا ہے تری محفل میں

خوب سے ہو کے خوب تر جائے


سب کی قسمت سنوارنے والے

میری تقدیر بھی سنور جائے


بزمِ عالم کا رنگ پھیکا ہے

تم جو چاہو تو پھر نکھر جائے


بانٹ دیتے ہیں سب فقیروں میں

جو بھی نعمت نبی کے گھر جائے


انکی آنکھوں کے اک اشارے پر

نظام عالم ٹھہر ٹھہر جائے


لطف جب ہے ادھر کروں فریاد

مرے سرکار کو خبر جائے


ہر قدم پر ادا کرے سجدے

جب نیازی ترے نگر جائے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

ساری دنیا سُکھ نال سُتی میں اٹھ اٹھ کے جاگاں

جو بھی سرکار کا غلام ہُوا

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

درِ سرکارؐ سے ربط بڑھاؤ تو سہی

دل دیاں کہنوں سناواں سوہنیاں

ہیں فلک پر چاند تارے، سرورِ کونین سے

جبینِ شاہِ امم رشکِ صد قمر ہوئی ہے

مولا یا صل و سلم دائما ابدا

وہ اپنے کردار کی زبانی