سبھی عکس تیری شبِیہ کے
مرے دِل میں ہیں مرے پاس ہیں
ترا صدق تیرا وجود ہے
ترے زخم تیرا لباس ہیں
وہ ہیں لفظ کتنے گراں بہا
جو نبھا سکیں ترا تذکرہ
مرے آنسوؤں کو قبول کر
یہی میرے حرفِ سپاس ہیں
یہ خیال ہے نہ قیاس ہے
ترا غم ہی میری اساس ہے
جنہیں لَو لگی ہو حسین کی
وہی میرے درد شناس ہیں
جسے صرف حق ہی قبول ہو
یہی جس کا اصلِ اُصول ہو
جو نہ بک سکے‘ جو نہ جھک سے
اُسے کر بلائیں ہی راس ہیں
وہ جو نورِ چشم بتول تھا
جو گلِ ریاضِ رسول ؐ تھا
اُسی ایک شخص کے قتل سے
مری کتنی صدیاں اُداس ہیں
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال