سیدِ ابرار نے ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

سیدِ ابرار نے ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

اک نظر سے آپ نے مفلس کو داتا کر دیا


حضرتِ عیسٰی نے مُردوں کو جِلایا ہے مگر

مرحبا ! اے مُصطفٰے پتّھر کو زندہ کر دیا


ضربِ مُوسٰی سے ہوا پانی رواں پتّھر سے، پر

آپ کے اِک لمس نے چُلُّو کو دریا کر دیا


آپ کی انگُشت نے ،سُورج کو پھیرا عصر پر

چاند کی جانب اُٹھی تو ،اُس کو دو جا کر دیا


ظُلمتیں سب مٹ گئیں سارےجہاں سے دفعتاً

آپ کے چہرے کی ضَو نے یُوں اُجالا کر دیا


مدحتِ سرکار کی توفیق جس کو مل گئی

غم کے صحرا میں خُدا نے اُس پہ سایہ کر دیا


آپ کی دہلیز پر آنسو بہا کر یا نبی

غم سے بوجھل دل کو لمحہ بھر میں ہلکا کر دیا


تین سو تیرہ جو اُترے بدر کے میدان میں

دبدبہ وہ تھا ، بڑے لشکر کو چلتا کر دیا


آپ نے بخشا عَلَم خیبر میں جس کو با خدا

کر سکا لشکر نہ جو ، اُس نے وہ تنہا کر دیا


اُنْ کی مدحت کرسکوں میں ،کیا مری اوقات ہے

خود خُدائے لَم یَزَل نے جن کو یکتا کر دیا


شاہ کے در کو زمیں پر ،میرے مولا نے جلیل

بے کسوں کے واسطے ملجا و ماوٰی کر دیا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

مُجھ نکمّے کو اذنِ ثنا مل گیا

میرے مولا کا مُجھ پر کرم ہو گیا

نبی کے نام سے جاگی ہے روشنی دل سے

ترے در سے غُلامی کا ، شہا ! رشتہ پُرانا ہے

رحمتوں کا گر خزانہ چاہئے

میرے شام و سحر مدینے میں

اِک رنگ چڑھے اُس پہ جو دربار میں آوے

مثالی ہر زمانے میں مرے آقا ! ترا جینا

کب مدینے میں جانِ جاں ہم سے