سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر ‘ آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے


انکی محفل کے آداب کچھ اور ہیں ‘ لب کشائی کی جراءت مناسب نہیں

ان کی سرکار میں التجا کے لئے جنبشِ لب نہیں ‘ چشمِ تر چاہیے


اپنی روداد غم میں سناؤں کسے ‘ میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا ؟

جس کی خاک قدم بھی ہے خاکِ شفا میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے


رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں ‘ اب میں آنکھوں کا اپنی کروں گا بھی کیا

اب نہ کچھ دیدنی ہے ‘ نہ کچھ گفتنی ‘ مجھ کو آقاﷺ کی بس اک نظر چاہیے


میں گدائے دَرِ شاہِ کونین ﷺ ہوں ‘ شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں

ہو میّسر زمیں پر کہ زیرِ زمیں ‘ مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے


ان نئے راستوں کی نئی روشنی ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی

ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیئے ‘ ہم کو آئینِ خیر البشر ﷺ چاہیئے


گوشہ گوشہ مدینے کا پُر نور ہے ‘ سارا ماحول جلووں سے معمور ہے

شر ط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے ‘ دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے


مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لئے صرف لفظ و بیاں کا سہارا نہ لو

فنِ شعری ہے اقبؔال اپنی جگہ‘ نعت کہنے کو خونِ جگر چاہیے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

نہ چھیڑو ذِکرِ جنت اب مدینہ یاد آیا ہے

روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

کہاں ملتی مسرت دور رنج و غم کہاں ہوتے

مُقدّر آج کتنے اَوج پر ہے

مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

آپ آئے ہوا حسنِ منظر الگ

رسول اکرم حبیب داور درود تم پر سلام تم پر

پیغامِ نور بزمِ ثنائے رسول ہے

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک

اللہ کرم اللہ کرم آباد رہے نعتوں کا جہاں