تڑپ دل میں نہ آنکھوں میں نمی ہے

تڑپ دل میں نہ آنکھوں میں نمی ہے

ابھی کامل کہاں عشقِ نبی ہے


سراپا نور ہے جو روشنی ہے

اگر ہے کوئی تو ذاتِ نبی ہے


مدینے کی زیارت خوب کی ہے

مگر آنکھوں میں اب بھی تشنگی ہے


درودِ پاک پڑھ کر دم کیا کر

مرض تیرا اگرچہ دائمی ہے


تبھی خورشید چمکا آسماں کا

شعاعِ ماہِ طیبہ جب پڑی ہے


مدد کے واسطے تشریف لائیں

شہِ بطحا ! مصیبت کی گھڑی ہے


نہیں ہے کوئی آقا کے سوا، اب

قیامت تک اُنہی کی پیروی ہے


شہا ! آکر اسے آباد کر دیں

بہت ویران دل کی جھوپڑی ہے


شفیقؔ آقا کی مدحت میں مزے سے

ہماری زندگی اب کٹ رہی ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

چہرہ ہے کہ بے داغ جواں صبحِ فروزاں

من گھن چا ڈھولا ترلے اساں دے

نبیاں دے تاجدار تے سُلطان آگئے

جو بھی گِرا زمیں پہ اُسی کو اُٹھا لیا

ہے یہ جو کچھ بھی جہاں کی رونق

مقدر سنوارے مدینہ مدینہ

فضل ہے شاہ و گدا سب پہ ہی یکساں تیرا

اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

ہم کو آتا ہے صدا کرنا صدا کرتے ہیں

کون شیدائیِ مصطفیٰ ہے بالیقیں مصطفیٰؐ کو پتہ ہے