اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

حامی ہے جن کا شافعِ محشر لگا ہوا


طائر وہی خیال کا، پہنچا ہے اُن کے در

جس کو ہے اسمِ نور کا شہپر لگا ہوا


آتے ہیں ان کے در پہ زمانے کے بادشہ

جن کا تری گلی میں ہے بستر لگا ہوا


مہکے ہیں ایسے حلقے درودوں کے بے شبہ

گویا کہ بام و در پہ ہے عنبر لگا ہوا


منصب کسی کا اُس کے مقابل ہو کیا بھلا

جو سارے انبیا کا ہے افسر لگا ہوا


اُس سر زمیں کا دہر میں ثانی کہاں بھلا

ہے جس زمیں پہ گنبدِ اخضر لگا ہوا


غم اُن کو جا سنائیں گے ہم بھی جلیل جی

طیبہ میں ہے حضور کا دفتر لگا ہوا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

دونوں جہاں میں یا نبیؐ کوئی نہیں ترا جواب

انسان کو انسان بناتی ہے حدیث

وجودِ خاک خورشیدِ نبّوت کی

خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ و سلم

شرمِ عصیاں سے اٹھتی نہیں ہے جبیں

جس کا کوئی ثانی نہیں وہ نبی ہمارا ہے

وہ لطف و خیر کا معمار

لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا

ٹرپئے نے مسافر طیبہ دے ویکھن روضنے دیاں شاناں نوں

میں صدقے نام محمد دے جس نام نوں لگدیاں دو میماں