یہی ہے تمنّا یہی آرزو ہے یہی تو سنانے کو جی چا ہتا ہے
مدینے کو جاؤں پلٹ کر نہ آؤں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
رسولِ گرامی کے روضے کو دیکھوں حقیقت میں کعبہ کے کعبہ دیکھوں
یہ سر اُن کی نورانی چوکھٹ پہ رکھ کر نصیب آزمانے کو جی چاہتا ہے
کروں عرض یہ تھام کر اُن کی جالی میں در کا سوالی ہوں اے شاہِ عالی
نہ لَوٹائیے گا مجھے ہاتھ خالی کہ بگڑی بنانے کو جی چاہتا ہے
نہیں کوئی ہمدرد پیاروں کو دیکھا دِلاسوں کو دیکھا سہاروں کو دیکھا
کروں ترک دنیا کو عشقِ نبی میں بھلا دوں زمانے کو جی چاہتا ہے
ترا نام ہے سبکیوں کا سہارا تری ذات ہے درد مندوں کا چارہ
تری خاکِ پا جو کہ کحل البصر ہے وہ سرمہ لگانے کو جی چاہتا ہے
بلا لیجئے اپنی رحمت کا صدقہ نبوّت کا برکت کا عظمت کا صدقہ
بلا لیجئے شان و شوکت کا صدقہ مقدّر جگانے کو جی چاہتا ہے
صلوٰۃ و سلام اے رسولِ معظمّ سلامُ علیک اے نبئ مکرّم
خدا کی قسم تیرے روضہ پہ آکر یہ ہر دم سنانے کو جی چاہتا ہے
تصوّر میں سجدہ کیا اُن کے آگے زمان و مکاں جھک گئے میرے آگے
جہاں سجدہ ریزی کا لطف آگیا ہے وہیں سر جھکانے کو جی چاہتا ہے
سیہ کاریوں کی فراوانیاں ہیں پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں
جبیں تیرے قدموں پہ اِک روز رکھ کر گنہ بخشوانے کو جی چاہتا ہے
اگر حاضری ہو مری تیرے در پر کبھی جیتے جی تیرے روضے پہ آکر
عقیدت سے جو نجم کہتا ہے اکثر وہ نعتیں سُنانے کو جی چاہتا ہے
شاعر کا نام :- نجم نعمانی