دل، جان، ہوش اور خرد سب کارواں چلے گئے
تم بھی مدینہ چل پڑو، سب تو وہاں چلے گئے
عشقی کا فکر و فلسفہ، عینی کا رعب و دبدبہ
نوری کا مشربِ سخا، یہ سب کہاں چلے گئے
مایوسیوں نے جب کبھی گھیرا غلامِ غوث کو
یا غوث کہہ دیا تو سب سود و زیاں چلے گئے
دل، علم اور عمر کی تھیں کچھ لکیریں ہاتھ میں
اک دن نہ جانے کیا ہوا سارے نشاں چلے گئے
تبلیغِ مسلکِ رضا تھا جن کا مقصد حیات
وہ سنیوں کے مقتدا سید میاں چلے گئے
چوّن برس جنہوں نے کی ترویج دینِ مصطفیٰ
سید حسن، وہ نازش قاسم میاں چلے گئے
سوچا تھا آگے اور بھی نعتیں سنیں گے ان سے ہم
ایسے میں ہم کو چھوڑ کر نظمی میاں چلے گئے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا