دورنِ آگہی

دورنِ آگہی

یہ ایک کانٹا سا کھٹکتا ہے ۔۔۔۔۔


خدا ئے لم یزل نے ‘

وہ جو باقی تھا ‘ جو باقی تھا


روزِ اوّل سے

بھلا اولادِ آدم کی فنا کا


یہ تماشا

بے تحاشہ


کیوں لگایا ہے

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

فروری 1946 کی یاد میں

لوگ رخصت ہوئے جو حج کے لیے

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو!

راتوں کی بسیط خامشی میں

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

کاش! پھر مجھے حج کا، اِذن مل گیا ہوتا

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

فجَر کا وقت ہوگیا اٹّھو!