لوگ رخصت ہوئے جو حج کے لیے

لوگ رخصت ہوئے جو حج کے لیے

جلے میری پلک پلک پہ دئیے


دل میں ہے درد و داغِ مہجوری

وہ حرم سے نگاہ کی دُوری


نہ زر و سیم ہے نہ جنسِ ہنر

صرف شوقِ سفر ہے برگِ سفر


کس طرح آؤں تیرا گھر دیکھوں

کیسے طیبہ کے بام و در دیکھوں


ربّ کعبہ! کرم کا طالب ہوں

میں تیری ذات سے مخاطب ہوں


کون ہے جو مری پکار سُنے

قصّہ چشمِ اشکبار سُنے


سخت مضطر ہوں خلقِ کونین

ہو میّسر زیارتِ حرمین


گر ملے مجھ کو حاضری کا پیام

چلوں کعبے کو باندھ کر احرام


جب میں باب السّلام سے گزروں

خواہشِ ننگ و نام سے گزروں


آئے جس دم مقام ِ ابراہیم ؑ

شوق سے خم کروں سرِ تسلیم


مجھ کو یارب ہو طوفِ کعبہ نصیب

سنگِ اسود بھی ہو لبوں کے قریب


ہو مقدّر میں سر خرو ہونا

ملتزم سے لپٹ لپٹ رونا


پیاس اپنی بجھاؤں زمزم سے

بے نیازی ہو کیف سے کم سے


ہو نظر میں حطیم کا اکرام

ہیں جہاں دفن انبیائے کرام


سعی جب ہو ٖصفا و مروہ کی

یاد ہو ہاجرہ کی بے چینی


جب منیٰ میں قیام ہو میرا

سجدہ شکر کام ہو میرا


عرفات آئے تو وقوف کروں

جبل الرّحمت اُس گھڑی دیکھوں


پھر کروں واپسی پہ قربانی

دل کو گرمائے جوشِ ایمانی


یوں ادا ہو خلیلؑ کی سنّت

اُس رسولِ جلیل کی سنّت


دل میں ہو جذبہ حق شعاری کا

جاں سپاری کا، جاں نثاری کا


میں بصد عجز و انکسار چلوں

جب سوئے شہرِ شہریار چلوں


لے کے انوارِ گنبدِ خضرا

جگمگا لوں مَیں روح کی دنیا


جالیوں سے لپٹ لپٹ جاؤں

عاجزی سے سمٹ سمٹ جاؤں


پڑھوں سردارِ انبیاء پہ سلام

پڑھوں اصحابِ با صفا پہ سلام


ہوں دعائیں جوارِ رحمت میں

سجدہ ریزی ریاضِ جنّت میں


میرے ما لک مرے سمیع و بصیر

دیکھوں اس خوابِ خوب کی تعبیر

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

شاہِ برکت کی برکات کیا پوچھیے جس کو جو بھی ملا ان کے گھر سے ملا

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

قافِلہ آج مدینے کو روانہ ہوگا

نہ میں شاعر نہ شاعر کی نوا ہوں

کیوں ہیں شاد دیوانے! آج غسل کعبہ ہے

گریۂ کُن بُلبلا از رنج و غم

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

آئیں گی سنّتیں جائیں گی شامَتیں

میں کیا ہوں معلوم نہیں

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں