میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں کیا ہوں معلوم نہیں

میں قاسمِ مقسوم نہیں


میں تسلیم کا پیکر ہوں

!میں حاکم محکوم نہیں


میں نے ظُلم سہے لیکن

میں پھر بھی مظلوم نہیں


میں مستی کا ساغر ہوں

ہوش سے میں محروم نہیں


تیری رحمت چھوڑے کون

توبہ میں معصُوم نہیں


میرے تبریزی انداز

میں مولائے رُومؒ نہیں


میں مسجُودِ ملائک ہوں

میں راقم مرقوم نہیں


میں مخلوق کا خادم ہوں

کون میرا مخدوم نہیں


جیتے جی مر جاتا ہوں

مر کے میں معدُوم نہیں


میں نے کیا کیا دیکھا ہے

میں یو نہی مغمُوم نہیں


میں صحرا کی جان ہوا

میں بادِ مسمُود نہیں


میں مایوس نہیں لیکن

اُمیدِ موہُوم نہیں


واصِفؔ کیا نظمیں لکھے

رنگِ جہاں منظوم نہیں

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

کیسا چمک رہا ہے یہ پنجتن کا روضہ

قلب میں عشقِ آل رکھا ہے

یہ پہلی شب تھی جدائی کی

زمین آدھی تاریک ہے

زہد و تقویٰ کا تھا شہرہ جن کا ہندوستان میں

پانج پیروں کی جس پر نظر پڑ گئی اس کا رشتہ مدینہ سے جُڑ سا گیا

سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

گریۂ کُن بُلبلا از رنج و غم

یا شہیدِ کربلا یا دافعِ کرب و بلا

شاہِ برکت کی برکات کیا پوچھیے جس کو جو بھی ملا ان کے گھر سے ملا