یہ جشنِ عرسِ قاسمی نعمت خدا کی ہے

یہ جشنِ عرسِ قاسمی نعمت خدا کی ہے

یہ بزمِ نور ظلِّ الہ مصطفیٰ کی ہے


مارہرہ پر نہ کیوں شہ جیلاں کا رنگ ہو

جاگیر یہ ہمیشہ سے غوث الوریٰ کی ہے


مارہرہ منسلک ہے مدینہ کی میم سے

نورانیت یہاں اسی نورِ خدا کی ہے


صہبائے چشتیت سے ہے مارہرہ مست مست

اس پر نظر ہمیشہ سے خواجہ پیا کی ہے


مارہرہ پر یہ فضل ہے آلِ رسول کا

تقریب کوئی سی بھی ہو احمد رضا کی ہے


مسند نشیں ہے پیر سخاوت ہے جوش پر

برکاتیو بڑھو کہ یہ ساعت عطا کی ہے


نظمی تمہیں نسب پہ نہ کیوں اپنے ناز ہو

خوشبو تمہارے خوں میں اسی کربلا کی ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

اہلِ چمن اٹھو کہ پھر آئی بہار آج

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

جاہ و جلال دو نہ ہی مال و مَنال دو

استادہ ہے کس شان سے مینار رضا کا

آؤ ہم بھی اپنے گرد لکیریں کھینچیں

دل کی کَلیاں کِھلیں قافِلے میں چلو

یہ پہلی شب تھی جدائی کی

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں