آنکھ میں اشک شبِ ہجر کی تنہائی ہے

آنکھ میں اشک شبِ ہجر کی تنہائی ہے

سوئے طیبہ ہے نظر تیریؐ تمنائی ہے


یا نبیؐ توؐ ہی تو سب کچھ ہے مر،ا تیرےؐ سوا

واقفیت ہے کسی سے، نہ شناسائی ہے


کتنا پاکیزہ و طاہر ہے تراؐ نام و نسب

تیراؐ خالق بھی ترےؐ نام کا شیدائی ہے


اچھے لوگوں کو وہاں کیا نہیں ملتا ہو گا

مجھ سے عاصی کی بھی جس در پہ پذیرائی ہے


فہم و ادراک پہ یہ راز کھلا بالآخر

اتّباع آپؐ کی سب سے بڑی دانائی ہے


پائی ہے اہلِ ادب نے ہی حقیقی منزل

بے ادب کے لیے کونین کی رُسوائی ہے


حجرئہ پاک سے اشفاقؔ فلک تک دیکھو

بارشِ نور ہے، رحمت کی گھٹا چھائی ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

حضور ؐطیبہ کے رات اور دن مجھے بہت یاد آرہے ہیں

جاتی ہیں بارشوں سے کر کے وضو ہوائیں

مجھے بھی لائے گا شوقِ سفر ’’مواجہ‘‘ پر

کہنا ہے دل کا حال رسالتؐ مآب سے

نہ ایسا کوئی تھا نہ ہے وہ پیکرِ جمال ہے

مرتبہ کیا ہے خیرالانامؐ آپؐ کا

ترےؐ غلام کا انعام ہے عذاب نہیں

میں لاکھ برا ٹھہرا یہ میری حقیقت ہے

اے دلرباؐ اے دلنشیںؐ

ہادیؐ و رہبرؐ سرورِ عالمؐ