بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں

بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں

سن لیں وہاں سلام جو بھیجیں یہاں سے ہم


ہاتھ جب بھی دعا کے اٹھائیں گے ہم

مصطفےٰ کو وسیلہ بنائیں گے ہم


جب نبی کو وسیلہ بنائیں گے ہم

دل میں جتنی مرادیں ہیں پائیں گے ہم


سب گناہوں کو اپنے بہائیں گے ہم

آنسوؤں کو مصلےٰ بنائیں گے ہم


داغِ عشقِ نبی لے کے جائیں گے ہم

قبر کو اپنی یوں جگمگائیں گے ہم


پھر جو قسمت سے طیبہ کو جائیں گے ہم

اُن کی نعتیں انہی کو سنائیں گے ہم


اذنِ شاہِ مدینہ کے ہیں منتظر

وہ بلائیں مدینہ تو جائیں گے ہم


دیکھ کر روضۂِ شاہ کی جالیاں

محترم اپنی آنکھیں بنائیں گے ہم


حشر میں ہوگی جب آمدِ مصطفےٰ

گیت اُن کی محبت کے گائیں گے ہم


نعت کے آسماں پر شفیقؔ آج پھر

اک درخشندہ سورج اگائیں گے ہم

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

یا سیدِ ابرار تِرا موئے مبارک

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

بے رنگ ہوچکا ہے غزل سے وفا کا رنگ

تم چاہے جہاں سے بھی ہو آیات اُٹھا لو

بھولا نہیں مسجد کے وہ مینار مِرا دل

وابستہ ہو گئے ہیں تِرے آستاں سے ہم

خیر مقدم کو نکل آیا ہے اشکوں کاجلوس

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

عالم نثار جن پر تشریف لا رہے ہیں