یا سیدِ ابرار تِرا موئے مبارک

یا سیدِ ابرار تِرا موئے مبارک

کیا خوب ہے خمدار تِرا موئے مبارک


لہراتے ہیں ہر شام و سحر نور کے چشمے

ہے بحرِ پُر انوار تِرا موئے مبارک


ہر سال ہوا کرتا ہے شاخوں میں اضافہ

بڑھ جاتا ہے ہر بار تِرا موئے مبارک


وہ جنگ کا میداں ہو کہ آقا کوئی مشکل

بنتا ہے مددگار تِرا موئے مبارک


ملتا ہے سکوں دل کو تو اِن آنکھوں کو ٹھنڈک

دیکھوں جو میں ہر بار تِرا موئے مبارک


ہم اہلِ سنن کے لئے ہے ایک تبرک

یا احمدِ مختار تِرا موئے مبارک


یہ حضرتِ طلحہ کے وسیلے سے ملا ہے

رکھتا ہے جو سنسار تِرا موئے مبارک


سرکار عجب کیا ہے کہ پا جائے شفا بھی

جو دیکھ لے بیمار تِرا موئے مبارک


اُس پار فضا ہے تِری خوشبو سے معطر

مہکاتا ہے اِس پار تِرا موئے مبارک


تو رحمتِ عالم کے تنِ پاک کا حصہ

ہم کرتے ہیں اقرار تِرا موئے مبارک


بھولے سے بھی پہنچائے جو تجھ کو کوئی ایذا

ہو گا وہ گنہگار تِرا موئے مبارک


رکھتا ہی نہیں ہے یہ شفیقؔ اُن سے تعلق

جو کرتے ہیں انکار تِرا موئے مبارک

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

میرے آقا کے پسینے کا بدل ممکن نہیں

جب دعا میں روغنِ نامِ نبی ڈالا گیا

ہوا نہ ہوگا کبھی حشر تک نبی کوئی

وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں

حشر میں سارے نبیوں کے آئے نبی

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

بے رنگ ہوچکا ہے غزل سے وفا کا رنگ

تم چاہے جہاں سے بھی ہو آیات اُٹھا لو

بھولا نہیں مسجد کے وہ مینار مِرا دل

بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں