وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں

وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں

اٹھائیے کہ نظر کو ہے میکشی کا شوق


خدا کا شکر ہوا پورا حاضری کا شوق

جبینِ دل کو تھا کب سے درِ نبی کا شوق


نہ سروری سے ہے مطلب نہ خسروی کا شوق

اگر ہے شوق تو خاکِ درِ نبی کا شوق


نہیں ہے دل میں اگر مدحتِ نبی کا شوق

فضول شہرِ سخن میں ہے شاعری کا شوق


اِدھر اُدھر کا نہیں ہے کہیں کسی کا شوق

درِ حضور پہ مرکر ہے زندگی کا شوق


وہی نظر جو ہے ما زاغ و ما طغیٰ کی امیں

اٹھا ئیے کہ نظر کو ہے میکشی کا شوق


مچلتا رہتا ہے دل کے غریب خانے میں

نبی کے شہر میں چھوٹی سی جھوپڑی کا شوق


اشارہ شاہِ امم کا ملا شفیقؔ اُدھر

اِدھر چلا مجھے لے کر درِ نبی کا شوق

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

ہم صبح و شام کرتے ہیں مدحت رسول کی

وہ جس نے آتشِ عشقِ نبی لگالی ہے

میرے آقا کے پسینے کا بدل ممکن نہیں

جب دعا میں روغنِ نامِ نبی ڈالا گیا

ہوا نہ ہوگا کبھی حشر تک نبی کوئی

حشر میں سارے نبیوں کے آئے نبی

یا سیدِ ابرار تِرا موئے مبارک

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

بے رنگ ہوچکا ہے غزل سے وفا کا رنگ

تم چاہے جہاں سے بھی ہو آیات اُٹھا لو